بہروپ
ابن انشاء کی ایک اور خوبصورت نظم ۔۔۔۔۔ ناجانے کیوں یہ نظم پڑھ کر مجھے اپنے گاءوں ، خاص طور پر بچپن کے گاءوں کی یاد آ جاتی ہے اور میں حال کو کچھ دیر کیلیے فراموش کر دیتا ہوں۔ آپ ضرور پڑھیں اور اپنے جزبات کا اظہار کریں۔
یہاں اجلے اجلے روپ بہت
پر اصلی کم بہروپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رکنا
جہاں سایا کم اور دھوپ بہت
چل انشا اپنے گاءوں میں
بیٹھیں گے سکھ کی چھاءوں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے
یہاں ہر ایک شے نرالی ہے
اس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مفلس ہونا گالی ہے
چل انشا اپنے گاءوں میں
جہاں سچے رشتے یاروں کے
جہاں گھونگٹ زیور ناروں کے
جہاں جھرنے کومل سر والے
جہاں ساز بجیں بن تاروں کے
Comments
Post a Comment